// // Leave a Comment

سالگرہ کا تحفہ

:tt1:سالگرہ کا تحفہ :tt1:
یہ کہانی ہندی میں تھی میں نے اس کا اردو میں ترجمعہ کیا ہے


میرا نام جے ہے، میں پچمڑھي کا رہنے والا ہوں، میری عمر 26 سال ہے. میں بہت ہی ملنسار اور شہوت انگیز ہوں. میرا لںڈ بہت بڑا اور آپ کہہ سکتے ہیں کہ بس مست ہے. میرے دوستوں کا کہنا ہے - سدھن کی چوت، پجابن کا دودھ، ہمالیہ کی ٹھنڈ اور جے کا لںڈ ان کا کوئی مقابلہ نہیں ہے.

میں آج سے 5 سال پہلے بھوپال آ گیا کیونکہ مجھے بھوپال میں اچھا لگتا ہے. میں نے پچشيل شہر میں کمرہ کرایہ پر لیا. نیچے مکان مالک اور اوپر میرا کمرہ، میرے بازو میں ایک اور کرایہ دار، جو ڈرايور تھا، شوہر بیوی رہتے ہیں. میری کمرے میں باتھ روم نہیں تھا تو میں مالک مکان کا باتھ روم استعمال کرتا ہوں اور میرے کمرے کی کھڑکی سے باتھ روم کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے جو میرا ٹائم پاس ہو گیا ہے.

مالک بینک منیجر ہے، اس کے دو لڑکے ہیں بڑا باہر ہی رہتا ہے، چھوٹا لڑکا میری عمر کا، نام راکیش ہے، نشہ بھی کرتا ہے. اس کے بعد سب سے چھوٹی اس کی لڑکی مینو جو اسکول میں پڑھتی ہے، رنگ گورا، بھرپور بدن، گول - گول موٹی گاںڈ، بڑے - بڑے بوبے اور میری سب سے بڑی کمزوری!

میں بھوپال آ کر گھر کو بہت یاد کرتا تھا کیونکہ وہاں خوب چدائی کرتا تھا. یہاں کوئی جگاڑ ہی نہیں، بس مٹھ ہی مارتے رہو.

جب بھی میں نہانے جاتا، نںگا ہوکر خوب نہاتا اور مینو کی برا اور پیںٹی سے خوب کھیلتا. اسے پہن کر نہاتا اور کبھی کبھی اسے لںڈ میں پھساكر مٹھ مارتا. پیسے کی میرے پاس کمی نہیں ہے، گھر سے خوب آتے رہتے ہیں. میں نے مالک مکان کو بتایا کہ میں تعلیم حاصل کرتا ہوں. کچھ دن ایسے ہی گزرتے گئے، کبھی کبھی مینو کو، کبھی اس کی ماں کو میں باتھروم میں دیکھتا، مکمل تو دکھتا نہیں تھا پر جتنا دکھتا تھا میرے موسم بنانے کے لئے کافی تھا.

میں ہوم تھیٹر لایا. مینو کو گانے سننے کا بہت شوق تھا. جب بھی اس کے پسند کا گانا بجتا، وہ اوپر میرے کمرے کے پاس گھومتی رہتی اور نغمے سنتی یا بازو والی بھابھی کے پاس بیٹھ جاتی. پڑوس میں ایک ہی پڑوسی کی وجہ سے میری ان سے اچھی دوستی ہو گئی. میں بھابھی کے کمرے میں اور کبھی بھابھی میرے کمرے میں گھنٹوں باتیں کرتے.

میں نے دھیرے دھیرے بھابھی سے بھیا کو نہ بتانے کی قسم دے کر شادی کے پہلے ان کے دوست سے ان کی چدائی کی پوری کہانی پوچھ لی.

بھابھی نے مجھ سے پوچھا تو میں نے کہا - ابھی کوئی ملی نہیں!

بھابھی سے میری خوب گندی گندی باتیں ہونے لگی. میں نے سوچا کیوں نہ بھابھی کو ہی چود لیا جائے.

ایک دن میں نے باتیں کرتے کرتے بھابھی کے بوبے دبا دئے. بھابھی نے مزید کچھ نہیں کہا تو میں بھیا کے جانے کے بعد خوب بوبے دباتا اور بھابھی کو گرم کرتا.

ایک بار میں نے بھابھی کے بوبے خوب دبایے اور اس کی ساڑھی کے اندر زبردستی اس کی چوت میں اوںگلی ڈال دی. بھابھی کی چوت گیلی ہو گئی. میں نے بھی انگلی اندر - باہر کی اور بھابھی کی چوت کے چنے کو رگڑ دیا تو بھابھی تو كويل جیسے كوكنے لگی. میں نے سوچا - بیٹا جے! آج تیرا جتنا جلدی کھل گیا!

میں نے اپنا لنڈ باہر نکالا اور بھابھی کو پکڑا دیا.

بھابھی نے کہا - یہ تو تمہارے بھیا کے لنڈ سے بھی مزید پہلوان ہے.

رگڑا پٹی میں بھابھی جھڑ گئی اور ہلا ہلا کر میرا مٹھ مار کر ویرے نکال دیا اور بولی - یہ تو رو رہا ہے.

میں نے 5 منٹ تک کچھ نہیں کہا اور پھر سے لنڈ کھڑا کر کے بولا - بھابھی، لو یہ لڑنے کے لئے تیار ہے! اب جیت کر بتاؤ!

بھابھی بولی - تم سے کیا جیتنا، میں تو تم سے ہارنا چاہتی ہوں، مگر یہ میں نہیں کر سکتی کیونکہ میرے پیٹ میں بچہ ہے.

میں اداس ہو گیا.

مجھے دیکھ کر بھابھی نے میرا لںڈ پکڑ کر منہ میں بھر لیا اور چوسنے لگی. میں تو پاگل سا ہو گیا. کبھی کسی نے میرا لںڈ چوسا نہیں تھا. میرے منہ سے سسکاریاں نکلنے لگی. میں نے لنڈ چھڑانا چاہا پر بھابھی کہاں ماننے والی تھی. پوری کریم چوس کر ہی دم لیا. لیکن لںڈ کی بھوک تو چوت سے ہی مٹتی ہے، بھابھی کے حاملہ ہونے کی وجہ سے سب تنازعہ ہو گیا.

میں اپنے کمرے میں گیا اور سو گیا.

دوسرے دن بھیا کے جاتے ہی بھابھی سے گپ شپ شروع ہو گئی. میں نے کہا - بھابھی، مینو تمہارے گھر آتی ہے، اس سے دوستی کر دو!

بھابھی نے کہا - یہ تو میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے.

بھابھی نے اگلی دوپہر مینو کو گھر پر بلایا اور مجھ سے ملایا. مینو سے میری دوستی کی بات کہی.

اس نے سوچ کر بتانے کو کہا اور اگلے دن ہاں کر دی. اس کی ہاں سنتے ہی میں مینو کی چدائی کے خواب دیکھنے لگا. کبھی اس کو اسکول سے گھمانے لے جاتا، میں اسے چومتا تو اسے برا لگتا.

اب ہم دونوں ہمارے ہی کمرے میں ملنے لگے. مینو کا جنم دن آیا، وہ صبح ہی میرے کمرے میں آئی اور مجھے چوم لیا.

میں نے بھی اسے برتھ ڈے کی مبارکباد دی اور پوچھا - تمہیں کیا تحفہ چاہیے؟

مینو نے کہا - تم جو بھی پیار سے دو گے، میں لے لوں گی.

میں نے پھر سے پوچھا، اس نے پھر وہی کہا.

میں نے کہا - اپنی بات سے مكروگي تو نہیں؟

اس نے کہا - بالکل نہیں!

میں نے بھی دیر نہ کرتے ہوئے کہا - میں ابھی گفٹ دینا چاہتا ہوں.

میںنے مینو ہاتھ پکڑ کر کھیںچا اؤر بستر پر پٹک دیا. وہ صبح صبح نہا کر آئی تھی، بال کھلے تھے، ٹاپ - سکرٹ پہنے ہوئے تھی.

میں اس کے اوپر چڑھ گیا اور اس کے بوبے پہلی بار دبایے.

مینو سسككر بولی - یہ کیا کر رہے ہو؟

میں نے کہا - گفٹ دے رہا ہوں.

اس پر مینو بولی - ایسے بھی گفٹ دیتے ہیں؟

میں نے کہا - ابھی تم ہی نے کہا تھا کہ میں برا نہیں مانوگي، جو بھی دینا چاہو، دے دینا.

میں تو سو کر اٹھا تھا، تو صرف چڈی میں تھا. میرا سامان تو صبح صبح ہی ٹننا گیا.

میں نے وقت نا گواتے ہوئے اس کے بوبے دبانا جاری رکھا اور منہ میں زبان ڈال کر کس کرنے لگا. مینو دو ہی منٹ میں اںگڑائی لیتے ہوئے میرا ساتھ دینے لگی. بوبے دباتے ہوئے اس کی ٹاپ ہٹا دی، برا کے ہک بھی کھول دئے اور سکرٹ کھینچ کر الگ کر دی. مینو صرف پیںٹی میں غضب لگ رہی تھی.

اس کے بوبے کے گلابی - گلابی چچوكو کو میں نے اپنے منہ میں لے لیا اور چوسنے لگا. مینو کراہنے لگی. چوستے چوستے اسکی پیںٹی میں اوںگلی ڈالی، اس کی جھانٹوں میں انگلي گھماتے ہوئے میں نے اچانک اس کی چوت میں گھسا دی.

مینو انه اه اه کر رہی تھی، اس کی چوت سے چکنا چکنا پانی نکل رہا تھا.

میں نے چڈی الگ کی اور مینو کی چوت میں لںڈ رگڑنے لگا. رگڑتے رگڑتے اس کے کندھوں کو پکڑ کر جيوهي لںڈ مینو کی چوت میں ایک ہی جھٹکے میں آدھا گھسا، مینو چهك اٹھی اور دھکا دینے لگی. میں نے بھی لںڈ چوت کی رگڑا بار چالو رکھی اسکی چوت کو گھس ڈالا، پورا لنڈ اندر بٹھا دیا.

اب مینو مجھے کس کر پکڑے تھی اور میں اسے بس چودے جا رہا تھا. وہ ايا امنه اها اوئی کر - کر کے چدوا رہی تھی.

میں نے اس کو اس دن دو بار چودا، بڑا مزا آیا پر ایک بات اكھري کہ مینو کی چوت سے خون نہیں نکلا. میرے پوچھنے پر بھی وہ انجان بنی رہی. خیر مجھے کیا!

اس دن کے بعد میں دو سال تک جب بھی موقع ملتا، مینو کو خوب چودتا!

بھابھی کو چدائی کی مٹھائی بھی کھلائی.

پر اب مینو کی گزشتہ سال شادی ہو گئی ہے اور اب میں بھابھی کو چودکر کام چلا رہا ہوں.

میری کہانی آپ کو کیسی لگی؟

0 comments:

Post a Comment

plz don't use wrong language for comment postingg